کسی بھی دوسرے رشتے کی مانند شادی بھی مسلسل توجہ چاہتی ہے۔ اس کیلئے آپ کو اپنے حقوق کے علاوہ فرائض کا تعین بھی کرنا پڑتا ہے اور کسی اچھے مقصد کی خاطر کبھی کبھی اپنے اصولوں کی قربانی بھی دینی پڑتی ہے۔ تب کہیں جاکر ایک خوشگوار اور سایہ دار رشتہ استوار ہوتا ہے۔
لبنیٰ بنت جمیل‘لاہور
دنیا میں کوئی انسان مکمل ہونے کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ ہرانسان میں کوئی نہ کوئی کمی یا خامی ضرور ہوتی ہے۔ لہٰذا ازدواجی زندگی کے معاملات میں پرفیکشن کی توقع کرنا درست نہیں۔اگر یہ تسلیم کرلیں کہ آپ کا شریک حیات آپ کی زندگی کا لازمی حصہ ہے اور وہ ایک عام انسان ہے لہٰذا اس سے بھی غلطیاں سرزد ہوسکتی ہیں تو سمجھ لیں کہ آپ آدھی جنگ جیت گئیں لیکن اگر آپ اپنے تعلقات پر مطمئن نہیں تو اس کا یہی مطلب ہوسکتا ہے کہ آپ زندگی کے حقائق کو قبول نہیں کرپاتیں۔ اس کی وجہ آپ کا اپنا رویہ یا پھر آپ دونوں کے مابین افہام و تفہیم کی کمی ہے۔ یہاں آپ کیلئے کچھ تجاویز پیش کی جارہی ہیں جن کے باعث ایک دوسرے کو سمجھنے اور زندگی کو سہل بنانے میں مدد ملے گی۔
بات چیت ضروری ہے
ہمیشہ ایک دوسرے سے اپنے محسوسات مسائل اور خواہشات کے بارے میں بات چیت کرتے رہیں۔
ایک دوسرے کے خیالات سے آگاہ رہنا اچھا رہتا ہے۔ حال کو بہتر بنانے اور مستقبل کے منصوبوں پر بات کرنا بھی ضروری ہے۔ مل بیٹھ کر اپنے مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں اس طرح شریک حیات کے ساتھ آپ کی ذہنی قربت میں اضافہ ہوگا۔ یہاں اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ سننا بھی اسی قدر اہم ہے جتنا کہ بولنا۔ آپ خاموشی کی زبان میں بھی اپنے محبت بھرے انداز‘ لمس‘ توجہ اور احترام کے ذریعے شریک حیات سے ہم کلام ہوسکتی ہیں۔
زیادہ توقعات نہ باندھیں
زیادہ توقعات باندھنا ہمیشہ خرابی کا پیش خیمہ ثابت ہوتا ہے۔ خصوصاً اس صورت میں آپ کو لازماً مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا جب آپ شوہر سے ایسی توقعات وابستہ کرلیں جن کا پورا کرنا اس بیچارے کیلئے کسی طور ممکن نہ ہو۔ لہٰذا توقعات باندھیں لیکن ایسی جنہیں آپ کا ساتھی باآسانی نبھا سکے۔ اسی طرح اپنی جانب سے بھی یہی کوشش کریں کہ فرائض کی ادائیگی میں کسی قسم کی کوتاہی نہ ہونے پائے۔ شریک حیات کے ساتھ رعایت برتیں اور اس کی خواہشات کا اہتمام کرنا سیکھیں۔
اختلاف سے خوفزدہ نہ ہوں
کبھی کبھی کسی بڑے مسئلے سے بچنے کیلئے آپس میں چھوٹی موٹی بحث ناگزیر ہوجاتی ہے۔ لہٰذا ایک دوسرے کو اپنے نظریات سے آگاہ کرتے رہیں کیونکہ ریت میں منہ چھپانے سے خطرہ ٹلتا نہیں۔ اختلافی مسائل پر بات کرنا بھی ضروری ہے۔ لیکن جب کسی مسئلے پر بحث چھڑ جائے تو تحمل سے کام لیں اور غور سے شوہر کی بات سنیں۔ غصے میں آنے یا چیخنے چلانے کی ضرورت نہیں۔ اپنا مؤقف بیان کرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے کی بات بھی سنیں اور کسی درمیانی سمجھوتے کی راہ نکالیں۔ جوش میں ہوش کھونے اور پرتشدد رویہ اختیار کرنے کی ضرورت نہیں۔ نہ ہی شریک حیات کی جانب سے ایسا رویہ برداشت کریں۔
زیادتی برداشت نہ کریں
خواتین اکثر اوقات صدمے‘ ڈر و خوف یا شرمندگی کے باعث اپنے اوپر کی گئی کسی زیادتی پرچپ رہتی ہیں اور اندر ہی اندر گھلتی رہتی ہیں۔ بہت سی خواتین اس بات کا اعتراف کرتی ہیں کہ زیادتی پربات نہ کرنے کے باعث ان کے خلاف یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔ لہٰذا ایسی غلطی کبھی نہ کریں۔ خود کو تکلیف برداشت کرنے کا عادی نہ بنائیں اور نہ ہی دوسرے فریق کو یہ اجازت دیں کہ وہ آپ کی خاموشی سے فائدہ اٹھائے۔ اپنی ضروریات‘ محسوسات اور پسند و ناپسند سے اسے آگاہ رکھیں۔
ایک دوسرے کو وقت دیں
کوئی بھی تعلق ایک ساتھ رہنے اور ایک دوسرے کا ساتھ دینے سے ہی استوار ہوتا ہے اور محبت بھی اسی طرح نموپاتی ہے۔ بیتی ہوئی خوشگوار گھڑیوں کو ایک ساتھ بیٹھ کر دہرائیں‘ سیروتفریح کے لیے ساتھ باہر جائیں اور اس وقت کو شکوے شکایات کی نذر نہ کریں بلکہ اس سے زیادہ سے زیادہ لطف اندوز ہونے کی کوشش کریں۔
اعتماد اور احترام کرنا سیکھیں
ضرورت سے زیادہ حساس یا شکی مزاجی ہونا آپ کی ازدواجی زندگی میں زہر گھول سکتا ہے۔ ان عادات کے باعث آپ کی زندگی میں وہ مسائل بھی سر اٹھا سکتے ہیں جن کا سرے سے کوئی وجود ہی نہ ہو۔ لہٰذا ہوشیار ضرور رہیں‘ اپنی آنکھیں اور کان ہمیشہ کھلے رکھیں لیکن ہمہ وقت شمشیر بکف بند رہیں۔ شادی شدہ زندگی میں ایک دوسرے پر اعتماد بہت ضروری ہے۔ سو اپنے شوہر کا احترام کریں اور اس پر اعتماد رکھیں تاآنکہ اپنی آنکھوں سے اس کے خلاف کوئی ثبوت نہ دیکھ لیں۔
اپنی خواہشات کو بھی اہمیت دیں
پرمسرت ازدواجی زندگی کیلئے ضروری ہے کہ آپ اپنی خواہشات اور چھوٹی چھوٹی خوشیوں کا گلا نہ گھونٹیں۔ انہیں اپنے ساتھ لے کر چلیں۔ اگر آپ انہیں اندر ہی اندر دباتی رہیں تو بالآخر ایک روز فرسٹریشن کا شکار ہوجائیں گی۔
کسی بھی دوسرے رشتے کی مانند شادی بھی مسلسل توجہ چاہتی ہے۔ اس کیلئے آپ کو اپنے حقوق کے علاوہ فرائض کا تعین بھی کرنا پڑتا ہے اور کسی اچھے مقصد کی خاطر کبھی کبھی اپنے اصولوں کی قربانی بھی دینی پڑتی ہے۔ تب کہیں جاکر ایک خوشگوار اور سایہ دار رشتہ استوار ہوتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں